Translate

Sunday, 31 August 2014

حضرت حمزہ رضی الله عنہ ...!

ضرت حمزہ رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے بعد ابو جہل ، ابو لہب ، امیہ ، عتبہ سب لوگ سناٹے میں آگئے تھے۔ ان کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب مسلمانوں سے کیسے نمٹا جائے۔

بازار میں بھی جہاں دو آدمی کھڑے ہوتے، گفتگو کا موضوع یہی ہوتا۔ کبھی باآواز بلند ، کبھی سرگوشیوں کے انداز میں۔ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسے بہادر سے ٹکر لے۔ تین روز ہو چکے تھے حمزہ رضی الله تعالیٰ عنہ کو اسلام لائے، یہ مسلمانوں کے لیے سکون کے دن تھے ...مگر انہیں پتا تھا کہ یہ دور رھے گا نہیں، ھمارے دشمن ضرور کوئی نہ کوئی چال سوچ رہے ہوں گے۔ مگر اِس وقت طوفان تھم گیا تھا ، اگر کوئی راہ میں مل بھی جاتا ، منہ پھیر لیتا ، ناک بھوں چڑھا لیتا مگر کہتا کچھ نہیں تھا۔
غموں پر غم سہنے کی تو مسلمانوں کو عادت سی ہو گئی تھی مگر خوشی پر خوشی مسلمانوں کے لیے نئی بات تھی ، ابھی حضرت حمزہ کے قبول اسلام پر الله کا شکر ہی ادا کر رہے تھے کہ.......!

مکے کی گلیوں میں ایک شخص نظر آیا ، آنکھوں میں خون اترا ہوا ، ہاتھ میں ننگی تلوار لہراتا ، اسلام اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلتا۔۔ وہ اعلان کر کے آیا تھا کہ آج وہ ایک ضرب میں قریش مکہ کی ساری پریشانیاں دور کر دے گا۔ یہ مہم جو نوجوان اتنا طویل القامت تھا کہ کھڑے کھڑے گھوڑے پر سوار ہو جاتا تھا، مزاج سنجیدہ مگر غصیلا ، عمر چھبیس 26 سال۔۔۔!!

جس وقت یہ نوجوان مکے کی گلیوں سے گزر رہا تھا ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم دارِ ارقم میںتشریف فرما تھے ، ابو قبیس کی پہاڑی کے دامن میں حمر کعبہ کے نزدیک۔ حضرت ارقم رضی الله عنہ کا گھر کچھ عرصے سے مسلمانوں کی مسجد بھی رها تھا اور پناہ گاہ بھی۔
چند صحابہ کرام حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے۔ حضرت بلال رضی الله تعالی عنہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے کہ انہیں وہ نوجوان نظر آیا۔ اس وقت اُس کے تیور دیکھے تو سیدنا بلال نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مطلع کیا۔ حضرت بلال کا خیال تھا وہ یہ خبر سنتے ہی فورا کچھ حفاظتی انتظامات کا حکم دیں گے مگر انھوں نے نہایت اطمینان سے جواب دیا :
"اس کے مجھ تک پہنچنے کے وقت کا انتخاب الله پاک کرے گا"

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ واپس کھڑکی کے باس دوڑ کے گئے، وہ تلوار لئے چلا آرہا تھا ، سیدھا مسلمانوں کی طرف ،
حضرت بلال نے پھر عرض کی : "یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم، الله نے وقت کا انتخاب کر دیا ہے۔ وہ آ گیا ہے-"
یہ سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا : "آنے دو ، اگر نیک نیتی سے آیا ہے تو خیر، ورنہ اسی کی تلوار سے اسکا سر قلم کر دیا جائے گا۔"

سب مسلمان چوکنے ہو کر بیٹھ گئے، حضرت بلال رضی الله تعالیٰ عنہ نے چولہے ہر دیگچا رکھا تھا جس میں پانی کھول رہا تھا، انہوں نے دل میں سوچا اگر خدانخواستہ ضرورت پڑی تو شاید یہ بھی کام آ جائے ، ویسے بھی مسلمانوں کو حضرت حمزہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی موجودگی سے بڑا حوصلہ تھا !
حضرت بلال پھر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑے ہوگئے ، وہ لمبا تڑنگا نوجوان اب مسلمانوں کے دروازے سے کوئی پچاس قدم کے فاصلے پر ہوگا۔

اتنے میں بلال رضی الله تعالی عنہ نے دیکھا کہ ایک ضعیف آدمی جسکی پشت بلال رضی الله تعالی عنہ کی جانب تھی، اسکے سامنے آکھڑا ہوا ۔ بلال رضی الله تعالی عنہ کو لگا کوئی بھکاری ہے ۔ یہ شمشیر بکف نوجوان اپنی غصیلی طبیعت کے باوجود ایک مخیر انسان تھا لیکن اس نے اس بوڑھے کو دینے کے بجائے اسے جنجھوڑ کر راستے سے ہٹا دیا ، پھر پتا نہیں کیسی کیسی قسمیں کھا کر چلایا :
"میں اس بد نصیب عورت کے ٹکڑوں کر ڈالوں گا"

پھر سب نے دیکھا کہ وہ یکایک مڑا اور الٹے پاؤں اُسی راستے پر چلا گیا جدھر سے آیا تھا ۔ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا لگتا تھا جیسے اس کے اندر کوئی عفریت داخل ہو گیا ہو۔

بظاہر خطرہ ٹل گیا تھا، مگر بلال رضی الله تعالی عنہ کا دل گواہی دے رہا تھا کہ آج بات یہیں ختم نہیں ہوگی۔ وہ اس نوجوان سے واقف تھے ، سارا مکہ اسے جانتا تھا ، وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو کسی کام کا عزم کرنے کے بعد اسے ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت بلال رضی الله تعالی عنہ کھڑکی کے پاس انتظار کرتے رہے ، اتنے میں حضرت بلال رضی الله تعالی عنہ نے دیکھا کہ وہی بزرگ چلے آ رہے ہیں جنہوں نے اس نوجوان کا راستہ روکا تھا اور جنہیں وہ بھکاری سمجھ رہے تھے ، یہ مکے کے درمیانے درجے کے تاجر تھے۔۔
حضرت نعیم بن عبدالله۔۔ جو کچھ عرصہ پہلے مسلمان ہو چکے تھے ، مگر اسکا اعلان نہیں کیا تھا۔ وہ دراوزے سے داخل ہوتے ہی حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گئے اور انہیں اس نوجوان سے ملاقات کا ماجرہ سنایا، کہنے لگے : "میں نے باہر گلی میں اس کو ہاتھ میں تلوار لئے ادھر آتے دیکھا تو پوچھا کہ تلوار کیوں میان سے نکال رکھی ہے؟
اس نے جواب دیا اُس کو قتل کرنے کے لئے جس نے قریش میں تفرقہ ڈال رکھا ہے۔
میں نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو ، اس پر وہ نہایت غضب ناک ہو کر پوچھنے لگا کون سے گھر کی؟
میں اپنے مسلمان ساتھیوں کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس صورت حال میں مجھے کچھ نہ سوجھا۔ میں نے کہہ دیا، اپنی بہن اور بہنوئی کی جو محمد صلی الله علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاچکے ہیں۔ یہ سنتے ہی اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی ، اس نے مجھے جھنجھوڑ کے پرے کیا اور اپنی بہن کے گھر کی طرف مڑ گیا ، شدید اشتعال کے عالم میں چیختا چلاتا اور اپنی بہن کے قتل کی دھمکیاں دیتا ، الله ان دونوں میاں بیوی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ! "

اس نوجوان کے اسی اشتعال کا مظاہرہ حضرت بلال رضی الله تعالی عنہ نے دور سے دیکھا تھا ، نعیم رضی الله تعالی عنہ کی روداد سن کر سب مسلمان اپنے ساتھیوں کی خیریت کی دعایئں مانگ رہے تھے کہ اتنے میں بلال رضی الله تعالی عنہ نے کھڑکی سے دیکھا کہ وہ نوجوان دوبارہ چلا آ رہا ہے ۔ کھنچی ہوئی تلوار اب بھی اسکے ہاتھ میں تھی ، حضرت بلال رضی الله تعالی عنہ نے بھاگ کر دروازہ بند کر دیا اور چٹخنی لگا دی۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فوراً صورتِ حال کا اندازہ لگا لیا، وہ فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور بلال رضی الله تعالی عنہ کو کہنے لگے :
"دروازہ کیوں بند کر دیا بلال ؟
بلال رضی الله تعالی عنہ نے کہا :
"وہ پھر آ رہا ہے تلوار لہراتا ہوا "
حضور صلی الله علیہ نے ایک لمحے کے لئے بلال رضی الله تعالی عنہ کو خاموش نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا :"پیغمبر کا دروازہ کسی کے لیئے بند نہیں ہوتا ، الله سے ڈرو بلال اور دروازہ کھول دو."

یہ کہہ کر وہ کمرے کے وسط میں جا کر کھڑے ہو گئے ، سارے صحابی بھی ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے ، حسبِ حکم بلال رضی الله تعالی عنہ دروازہ کھولنے کے لیئے پہنچے ہی تھے کہ باہر سے دستک سنائی دی ۔ نوجوان تلوار کے دستے سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا، حضرت بلال نے فورا دروازہ کھول دیا۔

اب جو مسلمانوں نے دیکھا اس پر حیران رہ گئے۔۔ وہ جھک کر دروازے سے داخل ہوا۔ اس کے اندر قدم رکھتے ہی رسول الله علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور اسکا دامن جھٹک کر اس سے پوچھا، "کس ارادے سے آئے ہو ؟"

ساری کائنات کی قوت سمٹ آئی تھی اس مختصر سے سوال میں ، نوجوان سر سے لے کر پاؤں تک لرز گیا ، اس نے رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور دیکھتا رہا۔ پھر پیچھے کھڑے حاضرین کی طرف دیکھا اور دیکھتا رہا ، اس کے بعد اس نے نظریں نیچے کر لیں اور اپنی تلوار کو دیکھتا ریا ، اسکے اندر ایک ہیجان پرپا تھا ، ایک لاوا تھا جو پھٹ پڑنے کے لئے تیار تھا ، سب صحابہ کرام کی نظریں اس پر جمی تھیں ، یکایک اُس نے تلوار ہاتھ سے گرا دی اور کہنے لگا :

"میں اعلان کرتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی الله علیہ وسلم اسکے رسول ہیں۔"

یہ سنتے ہی رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے اور انکے ساتھ مل کر سب صحابہ کرام نے اتنے زور سے الله اکبر کا نعرہ لگایا کہ ابو قبیس کی چٹانیں گونج اٹھیں۔

جانتے ہیں یہ نوجوان کون تھا؟

"یہ نوجوان وہ تھا جسے خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله سے مانگا تھا ، یہ مرادِ رسول تھے جن کے نام سے آج بھی کفر کو لرزہ چڑھ جاتا ہے."

"یہ حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ بن خطاب تھے، جوللں نے چالیسویں نمبر پر اسلام قبول كيا تھا"

(ماخوذ از - حیات الصحابہ)

No comments:

Post a Comment