Translate

Thursday, 28 August 2014

زیادہ سخی کون؟...!

ہیثم بن عدی کہتے ہیں کہ تین افراد کا بیت اللہ میں اس بات پر اختلاف ہوگیا کہ اس دور میں سب سے بڑا سخی کون ہے؟ ایک نے کہا : عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہُ ہیں۔ دوسرا بولا:قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہُ ہیں۔تیسرا بولاعَرابہ اَوسی رضی اللہ عنہُ ہیں۔ گفتگو نے طول کھینچا،ہر ایک اپنے اپنے حق میں دلائل دے رہے تھے حتیٰ کہ آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں ، کچھ لوگ بھی اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔ ان میں سے ایک شحص بولا:بھائیو! کیوں لڑائی کرتے ہو؟ایسا کرو کہ ہر شخص اپنے اپنے پسندیدہ شخص کے پاس چلا جائے،اس سے کچھ مانگے اور جو کچھ ملے ، وہ آکر یہاں بتا دے،پھر اس بات کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ بڑا سخی کون ہے؟
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہُ کا عقیدت مند اُن کے گھر گیا اور ان سے کہا: اللہ کے رسول ﷺ کے بھتیجے! میں مسافر ہوں اور زادِ راہ ختم ہے، مدد کا طلب گار ہوں۔
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہُ اس وقت گھوڑے پر سوار کہیں جانے کے لیے تیار تھے۔ اسی وقت گھوڑے سے نیچے اُترے اور فرمایا:۔ گھوڑے کی رکاب پر پاؤں رکھو اور اس پر سوار ہو جاؤ،اب یہ تمھارا ہےاس کے ساتھ ایک تھیلا ہے، اس میں جو کچھ ہے وہ بھی تمھارا ہے۔ اور ہاں ، اس میں ایک تلوار بھی ہے، اس کو معمولی نہ سمجھنا، یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہُ کی تلوار ہے۔ ۔ ۔
جب وہ خوبصورت سا گھوڑا لے کر اپنے دوستوں کے پاس واپس آیا اور تھیلا کھولا تو اس میں چار ہزار دینار اور ریشمی چادریں تھیں، اور ان سب پرمستراد حضرتِ علی رضی اللہ عنہُ کی تلوار تھی۔
قیس بن سعد رضی اللہ عنہُ کا عقیدت مند جب ان کے گھر گیا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ لونڈی نے پوچھا:تمھاری کیا ضرورت ہے؟
اس نے کہا: مسافر ہوں اور زادِ راہ ختم ہوگیا ہے۔
لونڈی نے کہا:تمھاری اس معمولی حاجت کے لیےآقا کو اُٹھانا اچھی بات نہیں۔ یہ تھیلی پکڑو اس میں سات سو دینار ہیں ،اس وقت قیس کے گھر میں یہی کچھ موجود ہے۔ گھر کے ساتھ ہی حویلی میں اونٹ بندھے ہیں۔ اپنی مرضی کا اونٹ پسند کرلو اور ایک غلام کو اپنی خدمت کے لیے لے کر سفر پر روانہ ہو جاؤ۔
تھوڑی دیر بعد قیس رضی اللہ عنہُ اُٹھ بیٹھے۔ لونڈی نے ان سے قصہ بیان کیا۔ کہنے لگے:بہتر تھا مجھے اُٹھا لیتی اور میں خود اس کی حاجت پوری کرتا، نہ معلوم جو کچھ تم نے اسے دیا ہے ، اس کی ضرورت کے مطابق ہے یا نہیں۔تاہم تم نے جو اچھا کام کیا ہے اس کے بدلے میں تم کو آزاد کرتا ہوں۔
ادھر عرابہ اوسی رضی اللہ عنہُ کا عقیدت مند بھی ان کے گھر جا پہنچا۔اس وقت نماز کا وقت ہو چکا تھا، عرابہ اوسی رضی اللہ عنہُ بوڑھے ھے اور نابینا ہو چکے تھے، نماز کے لیے گھر سے نکل رہے تھے، دو غلاموں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مسجد کی طرف رخ کیے ہوئے تھے۔ اس آدمی نے کہا اے عرابہ! میری بات سُنیں گے؟
عرابہ رضی اللہ عنہُ بولے: کیا کہتے ہو؟
کہنے لگا: میں مسافر ہوں اور میرا زادِ راہ ختم ہوگیا ہے۔
عرابہ رضی اللہ عنہُ نےاپنے دونوں ہاتھ غلاموں کے کندھے سے ہٹائے اور بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر زور سے مارا، اور کہنے لگے :عرابہ نے اپنا تمام مال و دولت خرچ کردیا ہے مگر یہ دو غلام باقی ہیں۔تم ان دونوں کو لے جاؤ، اب یہ تمھارے ہوئے۔
اس آدمی نے کہا:حضرت! ایسے کیسے ہوسکتا ہے،آپ خود سخت ضرورت مند ہیں، میں ان کو نہیں لوں گا۔
عرابہ رضی اللہ عنہُ کہنے لگے: سنو! اب یہ تمھارے ہیں اگر تم نہیں لیتے تو بھی ان دونوں کو آزاد کرتا ہوں ،اگر تم چاہو تو لے لو چاہو تو انکار کردو۔یہ کہنے کے بعد آگے بڑھے ، دیوار کا سہارا لیا اور اسے ٹٹولتے ہوئے مسجد کی طرف چل دئے۔
اس شخص نے ان دونوں غلاموں کو ہمراہ لیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آگیا۔
تینوں دوست پھر سے اکٹھے ہوئے،ہر ایک نے اپنے عطیے اور سلوک کا زکر کیا۔ اور ان تینوں کی تعریف کی کہ بلاشبہ یہ تینوں بہت سخی ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں۔
اب رہا یہ فیصلہ کہ سب سے بڑا سخی کون ہے؟ تو فیصلہ عَرابہ اُوسی رضی اللہ عنہُ کے حق میں ہوا ،کیوں کہ انہوں نے تنگ دستی کے باوجود جو پایا خرچ کردیا۔

No comments:

Post a Comment