ایک نوجوان نے مجھے میسج لکھا، اس کی تحریر سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ دین دار ہے اور اس کے مزاج میں صلاح ہے۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ روزانہ صبح کو نماز کے لیے اٹھنا چاہتا ہے، لیکن آنکھ نہیں کھل پاتی ہے۔ بیدار ہوتے ہوتے آفتاب نکل چکا ہوتا ہے اور اس طرح روزانہ نماز فجر فوت ہو جاتی ہے.
میں نے اس کو جواب دیا کہ آپ مصمّم عزم نہیں کرتے ، اس لیے ہوتا ہے۔ ورنہ اگر عزمِ مصمم ہو تو یقینا آپ بیدار ہو جائیں گے۔
میں دل میں سوچ رہا تھا کہ جب وہ میرا جواب پڑھیں گے تو کہیں گے کہ میں رات کو پختہ ارادہ کرتا ہوں، لیکن پھر بھی بیدار نہیں ہو پاتا۔
لیکن میں اپنے جواب پر قائم ہوں کہ آپ عزم کرتے نہیں۔ اگر عزم حقیقی ہو تو یقینا آپ بیدار ہو جائیں۔
میری دلیل یہ ہے کہ اگر آپ کو جاپان کی مفت سیاحت کی دعوت دی جاتی، مزید ہدیہ و تحائف کی خریداری کے لیے نقد رقم کا وعدہ بھی کیا جاتا تو کیا آپ انکار کر دیتے یا فوراً قبول کر لیتے؟
ظاہر ہے کہ قبول کر لیتے۔ پھر تسلیم کیجیے جس طیارہ سے سفر کرنا ہوتا اگر نماز فجر کے 15 منٹ بعد ہی اس کی پرواز ہوتی تو بتائیے آپ سفر کے لیے بیدار ہو جاتے یاپڑے سوتے رہتے اور کہتے کہ معاف کیجیے، میں اٹھ نہ سکا اور اس طرح سیاحت کا یہ موقع کھو دیتے؟؟
یقینا آپ بیدار ہو جاتے، آخر کیا بات ہے کہ سفر کے لیے آپ بیدار ہو جائیں اور نماز کے لیے آنکھ نہ کھل سکے؟
وجہ یہ ہے کہ سفر کے لیے آپ نے عزم کر رکھا تھا اور نماز کی بیداری کے لیے عزم نہیں بلکہ صرف اس کی نیت کی تھی۔
عزم صرف نیک ارادہ کا نام نہیں ہے، بلکہ ساتھ ہی اس کے وسائل کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔
تسلیم کیجیے کہ آپ نے مسجد میں نماز پڑھنے کا عزم کیا، لیکن نہ تو وضو کیا اور نہ ہی کپڑے پہنے ، نہ گھر سے باہر نکلے تو اس عزم کی آخر قیمت کیا ہے؟
جو فجرکی نماز کے لیے بیدار ہونا چاہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ عشاء کے بعد جلد سو جائے۔ اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ الارم گھڑی بھی بستر سے قریب مناسب جگہ پر رکھے، مزید کسی سے صبح بیدار کرنے کی درخواست بھی کرے۔ جب یہ سارے اسباب اختیار کرے تو اس کو عزم کہا جاتا ہے۔
آپ نے جس طرح صبح کو سفر کے لیے عزم کیا ہے، اسی طرح نماز کے لیے بھی عزم کریں تو پھر آپ کو اس طرح کے سوالات کی ضرورت پیش نہیں آئے گی
No comments:
Post a Comment