یونیورسٹی سے کلاس آف ہونے پر میں نے موٹر بائیک کو کِک لگائی اور گھر کی طرف روانہ ہوا.. کچی پکی سروس لین پر مقامی کالج کی لڑکی تیز قدم اٹھاتی بس سٹاپ کی جانب بڑھ رہی تھی.. اس کے بلکل عقب میں ایک لڑکا بھی اسی چال میں چلا جا رہا تھا جس سے کچھ فاصلے پر دو لڑکے قدرے آہستہ چلے جا رہے تھے.. اچانک لڑکے کا ہاتھ اٹھا اور لڑکی کے اڑتے آنچل کو پکڑ لیا..
وہ چاند چہرہ ستارا آنکھیں جیسے ایک لمحہ میں آنچل کے رنگ کی مانند زرد پڑ گئیں.. پیشتر اس سے کہ وہ لڑکی چکرا کر گر پڑتی ' میں نے بائیک کو سڑک پر کھڑا کیا اور لڑکی کی مدد کو پہنچنے تک اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیا.. آنچل کو لڑکے کی گرفت سے آزاد کرواتے اور دو ایک تھپڑ رسید کرتے تک اس کے دونوں ساتھی بھی موقع پر پہنچ چکے تھے..
قصہ مختصر ,,,,,, ویٹ لفٹنگ ' باڈی بلڈنگ اور یونیورسٹی ایتھلیٹکس ٹیم کا ممبر ہونے کی وجہ سے میں تینوں لڑکوں پر مکمل طور پر ہاوی ہو چکا تھا کہ اچانک کوئی چیز پہلو میں گھس گئی.. درد کی شدت سے لڑکوں کو چھوڑ کر دیکھا تو ایک طویل قامت شخص جو دکھنے میں بیٹ مین لگ رہا تھا ' ہاتھ میں چار انچ لمبا باریک چاقو تھامےدوسرے وار کے لۓ تیار کھڑا تھا..
چونکہ اس کا دوسرا وار دائیں ہاتھ پر روکا جس سے رنگ فنگر بری طرح زخمی ہو گئ لیکن ہاتھ کی گرفت میں آنے کی وجہ سے چاقو چھین لیا.. لوگوں کو جمع ہوتے اور چاقو میرے ہاتھ میں دیکھ کر چاروں نے راہ فرار اختیار کی.. زیادہ خون بہنے کی وجہ سے نقاہت بڑھتی جا رہی تھی سو ایک بار پھر بائیک اسٹارٹ کی اور ہسپتال پہنچا.. چند ہی گھنٹوں میں ایکسرے اور ضروری مرہم پٹی کے بعد ڈاکٹر نے مجھے اسپتال سے ڈسچارج کروا دیا.. خیر اس بات کی دلی خوشی تھی کہ کسی کے مزموم عزائم میری مداخلت سے خاک ہوۓ..
احباب مَن !!!!!! بات اگر یہیں ختم ہو جاتی تو شائد یہ واقعہ کبھی گوش گزار نہ کرتا.. درحقیقت سبق آموز پہلو یہ ہے جو اب بیان کیا جا رہا ہے..
دو ہفتے بعد چوک کو کراس کرنے کے فوراََ بعد کسی آواز نے بائیک رکنے پر مجبور کیا.. ایک باریش صاحب تھے موٹر بائیک پر جن کے ساتھ وہی زرد آنچل والی لڑکی تھی.. سلام و دعا ہوئی تو فرمانے لگے کہ تھوڑا وقت چاہۓ کچھ گفتگو کرنا ہے..
دل میں خیال آیا کہ شکریہ ادا کرنا چاہ رہے ہوں گے تو میں نے معذرت کرنا چاہی.. اصرار پر قریب ہی فاسٹ فوڈ کا رخ کیا.. میرے لۓ Cappuccino کافی کا آڈر دیا اور اپنے لۓ چاۓ لے کر آ گۓ.. میں انتظار کرنے لگا کہ صاحب کیا فرماتے ہیں..
"میرا نام اشرف ہے اور میں اسلام آباد میں سرکاری ملازم ہوں.. سپریٹنڈنٹ کے عہدہ پر کام کر رہا ہوں.." انہوں نے قدرے توقف سے کہنا شروع کیا.. ایسا لگ رہا تھا کہ وہ منتشر الفاظ کو سمیٹ کر کچھ کہنا چاہ رہے تھے لیکن الفاظ جیسے کسی جملے کا روپ دھارنے سے پہلے ہی بکھر جاتے تھے.. "اس واقعہ کے بعد میں روز بیٹی کو خود کالج چھوڑتا اور لیتا ہوں.. صرف اس امید پر کہ کسی روز آپ سے ملاقات ہو جاۓ اور معافی مانگ سکوں.." اشرف صاحب نے بات بڑھاتے ہوۓ کہنا شروع کیا..
"مجھ سے معافی..؟ کس بات کی..؟ سمجھا نہیں.." میں نے جواب دیا..
"جس روز یہ واقعہ پیش آیا میری بیٹی گھر پہنچ کر بہت روئی اور سارا قصہ اپنی ماں کو سنایا.. یہ بری طرح سہم گئ تھی.. شام تک روتی اور ماں کو بھی رلاتی رہی.. رات میں کھانا دیتے ہوۓ اس کی ماں نے مجھے ساری بات بتائی.. مجھ سے کچھ بھی کھایا نہ گیا اور پھر فجر تک میں روتا رہا.. آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے.. کرب و ازیت کی کیفیت تھی کہ دَم گھٹا جاتا تھا.. جاڑے کی رت کے باوجود پسینہ خشک ہونے کو نہ آتا تھا..
اتنی طویل رات کہ کٹتی نہ تھی.. پشیمانی ' ندامت اور افسوس کی بھیانک رات آزان فجر پر اس طرح ختم ہوئی کہ نماز ادا کرکے میں نے بیٹی اور اس کی والدہ کو جگایا.. الله رب العزت اور ان دونوں سے معافی مانگی کہ تمھارا مجرم میں ہوں کہ جس نے آج سے بائیس سال پہلے سائیکل پر کالج جاتے ہوۓ ایک لڑکی کا دوپٹہ کھینچا تھا اور شرمندگی محسوس کرتے ہوۓ چھوڑ کر بھاگ گیا تھا..
الہی ! میری خطا یہیں تک تھی جو تو نے مجھے قانون قدرت کے تحت باور کروا دی.. سو میں تجھ سے معافی کا خواستگار ہوں.. میرے گناہ کی سزا اس سے بڑھ کر مجھے اور کیا ملے گی کہ اپنی بیٹی کے سامنے آپ سے بھی معافی مانگ رہا ہوں.."
اشرف صاحب میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر جا چکے تھے جبکہ میں کافی اور چاۓ کے بھرے ہوۓ ڈسپوزیبل کپس کو دیکھ کر اس کھوئی ہوئی خوشی کو دوبارہ پانے کی کوشش کر رہا تھا جو پچھلے دو ہفتوں سے مجھے مخمور کۓ تھی..
وہ رات جاگ کر گزارنے اور سوچنے کی اب میری باری تھی کہ قدرت کس طرح ہمارے کۓ ہمیں ہی لوٹا دیتی ہے...........!!
تحریر.. ڈاکٹر ندیم جعفری..
No comments:
Post a Comment