بے شک مادہ پرست ہوگئی ہے،مگر اس کو ایسا بنایا کس نے؟
خود ہم نے ایسا بنایا ہے!
آج کل بچہ جب بولنے کے قابل ہوتا ہے تو صرف یہ الفاظ اسکے کانوں میں جاتے ہیں. میرا بیٹا اچهے اسکول میں پڑے گا ،اچها اور قابل انسان بنے گا )ڈاکٹر، انجینئر(
بیٹا خوب محنت کرو تم کو پوزیشن لانی ہے تاکہ مسقبل سنور جائے، تاکہ تم ایک کامیاب انسان بن سکو ۔
اسکے ننهے سے دل میں یہ بٹھا دی جاتی ہے کہ کامیابی صرف دنیا تک کی ہے .
دنیاوی تعلیم کیلئے بچے کو بہترین ٹیوٹر فراہم کئے جاتے ہیں ،اسکے باوجود بهی ہم خود رپورٹ چیک کرتے ہیں،اسکول جاکر دیکهتے ہیں اور ٹیچر سے بهی پوچهتے ہیں .
اس کے بر عکس ...........
دینی تعلیم کیلئے ہم کبهی یہ نہیں کہتے بیٹا قرآن پڑهو، اسے سمجهو، یہ دنیا عارضی ہے، اصل امتحان تو وہاں ہوگا !
بس ایک قاری لگا دیتے ہیں جو اس کو قرآن پڑهاتا ہے. کبهی یہ نہیں دیکها میرا بچہ کیسا پڑهتا ہے؟ اس کی قرأت کیسی ہے؟ اسکی تجوید ٹهیک ہے یا نہیں؟
ٹیوٹر کو 5000 دیتے ہوئے کبهی دل نہیں دُکهتا مگر ایک قاری کو 1000 دینا بہت مشکل لگتا ہے. قاری کو بهی اپنے پیٹ کے خاطر دس جگہ جانا ہوتا ہے تو وہ بهی بچے پر توجہ کم ،مال کمانے پر زیادہ محنت کرتا ہے .
بچہ جب آپ سے سنتا ہی دنیا ہی دنیا ہے تو اسکی محبت دنیا سے ہی ہوگی ناں!
جب اسکا اچها مسقبل دنیا کی تعلیم ہے تو وہ اس تعلیم پر توجہ دے گا.بس ۔
اسی لئے وہ اپنا اچھا برا بهولتے جارہے پیں اور جو دنیا سکهارہی ہے وہ سیکھ رہے ہیں ۔
اولاد سے گلہ نہ کریں ان پر توجہ دیں ، ان کو دین کا علم دیں ، اسلام کیا ہے؟ وہ سکھائیں!
No comments:
Post a Comment